ہمارے کارخانہ دار اور ان کی ذمہ داریاں
مَیں دسمبر 1996ء میں پاک فوج سے ریٹائر ہوا تھا۔ اب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو 19، 20 سال کا یہ عرصہ لگتا ہے پلک جھپکنے میں گزر گیا ہے حالانکہ یہ پوری ایک نسل کے جوان ہونے کا عرصہ ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد میں نے عزم کر لیا تھا کہ دفاعی اور عسکری موضوعات کو اردو زبان میں بھی عام کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے پرنٹ میڈیا کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ الیکٹرانک میڈیا اگرچہ 2001ء کے بعد سامنے آ چکا تھا، لیکن یہ میڈیا بمقابلہ پرنٹ میڈیا کے ’’فانی اور ناپائیدار‘‘ تھا جبکہ پرنٹ میڈیا ’’غیرفانی اور مستقل بالذات‘‘ ہوتا ہے۔ حرفِ نوشتہ، حرفِ گفتہ کے مقابلے میں اَنمت ثابت ہوا ہے۔ شائد مستقبل میں کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ الیکٹرانک میڈیا بھی، پرنٹ میڈیا کی طرح کوئی مستقل حیثیت اختیار کرلے۔ امریکہ میں حال ہی میں ایسے سکول کھلنا شروع ہو گئے ہیں، جن کا نصاب الیکٹرانک کتابوں کی صورت میں آزمایا جا رہا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر بدعت، مستقل روائت بھی بن جائے۔ استاد اور کتاب کی ضرورت اور اہمیت، میرا خیال ہے، ابدی ہے اور اس کی جگہ کوئی اور وسیلہ یا وسائل نہیں لے سکتے۔ سمعی بصری معاونات (AV Aids) بھی حروفِ نوشتہ کی مدد تو کر سکتے ہیں، ان کا متبادل نہیں بن سکتے۔
اردو زبان کی بدنصیبی یہ رہی ہے کہ اس میں پرنٹ میڈیا کا سارا سرمایہ صرف چند موضوعات ہی تک محدود رہا ہے۔ مذہب، سیاست، شعرو شاعری اور نثری ادب کے علاوہ اَن گنت موضوعات ایسے ہیں، جن میں دوسری زبانوں کے مصنف اور مولف خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں۔ ان اَن گنت موضوعات میں سے جو دو موضوع کسی قوم کی تعمیر میں پیش پیش رہے ہیں، وہ دفاع اور اقتصادیات ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ہاں اخلاقیات پر زور دینے والوں کی کمی نہیں لیکن آپ روزانہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے نسلِ نو کا اخلاق دن بدن بجائے سنورنے کے، بگڑتا چلا جارہا ہے۔ اخلاقی پندو وعظ کو سن سن کر نژادِ نو ایک چھناکے کے ساتھ نعرہ زن ہوتی ہے:
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
اگلے وقتوں کے ہم لوگ تعمیرِ قوم کے لئے اخلاقیات کو لازمی گردانتے ہیں، حالانکہ جن اقوام کو ہم اخلاق باختہ اقوام کہتے نہیں تھکتے ان کی خوشہ چینی پر مجبور ہیں، ان کی ایجادات کی بھونڈی پیروی کرنے کو فخر جانتے ہیں اور ان کی ’’بدعتوں‘‘ کے دریوزہ گر ہیں( میں نے بھکاری کا لفظ جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا تاکہ خود احترامی کا کچھ بھرم تو باقی رہے!)
کسی بھی قوم کی تعمیر کے لئے جہانِ تازہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جہانِ تازہ، افکارِ تازہ کے بغیر ممکن نہیں اور افکار تازہ کی ہماری قوم میں شدید قلت ہے۔یہ قلت اس وجہ سے نہیں کہ پاکستانیوں میں اس کا شعور نہیں۔ یہ وہ قوم ہیں کہ ذرے سے آفتاب بنا لیتے ہیں، لیکن آفتاب بنانے کا ’’طریقہ‘‘ جن زبانوں میں ہے، ہماری قومی زبان ان میں شامل نہیں۔ یہ میری بڑی سوچی اور سمجھی رائے ہے کہ جب تک اردوزبان میں قوم کے دفاع اور اس دفاع کو بنانے کے طور طریقوں سے اجنبیت برتی جاتی رہے گی تب تک ہم پاکستانی ترقی نہیں کر سکتے۔ آج کسی اخبار میں، میں یہ خبر دیکھ رہا تھا کہ چین، گزشتہ برس سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے جس کی دفاعی مصنوعات کی برآمدات کا حجم سب سے زیادہ ہے۔
اگر اس موضوع کو پھیلا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا کے تمام پس ماندہ ممالک کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ان کی دفاعی کمزوری ہے، اقتصادی کمزوری نہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہنا چاہوں گا کہ اقتصادیات اور دفاع کے موضوعات میں دفاع کو اقتصادیات پر اس لئے سبقت حاصل ہے کہ دفاع سے اقتصادی قوت پیدا کرنا اس بات سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہے کہ اقتصادی قوت سے دفاع خریدا جائے۔۔۔ پس ماندہ ممالک دفاع خریدتے رہتے ہیں اور اپنی اقتصادی قوت ضائع کرتے رہتے ہیں۔
دفاعی شعورکو عام کرنے کے لئے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس موضوع کی ابجد سیکھی جائے۔ ایک بار پھر مقامِ افسوس ہے کہ یہ ابجد، ہماری زبان اردو میں نہیں، جرمن، جاپانی، چینی، فرانسیسی، ولندیزی اور روسی زبانوں میں ہے جو ہمیں نہیں آتیں۔ ہاں انگریزی کچھ نہ کچھ آتی ہے۔ تو پھر کیوں نہ اسی کو آزمایا جائے؟۔۔۔ اس کو آزمانے کا ایک طریقہ تو براہ راست انگریزی سیکھنے کا ہے، جو ہم ایک حد تک سیکھ رہے ہیں لیکن اس زبان کا وہ ’’حصہ‘‘ نہیں سیکھ رہے جو ترقی یافتہ اقوام کو بامِ عروج تک لے جانے کا سبب بنتا ہے۔
مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور فیصل آباد پاکستان کے ایسے تین شہر ہیں جن میں کٹلری، چرمی بیگ اور چرمی ملبوسات، روز مرہ استعمال کی مشینیں یعنی کپڑے دھونے کی مشینیں، زرعی آلات، بجلی کے پنکھے وغیرہ ،سوتی پارچہ جات اور اس قسم کا ’’الابلا‘‘ مینوفیکچر ہوتا ہے۔ یہ کام کئی برسوں سے جاری ہے لیکن اس میں ترقی (Improvement) کی رفتار افسوسناک حد تک آہستہ ہے۔ مثلاً کپڑے دھونے کی جو مشین آج سے 50برس پہلے گوجرانوالہ میں بنتی تھی، اس کا معیار تقریباً آج بھی وہی ہے۔ یہی حال سیالکوٹ اور فیصل آباد میں بننے والی مضوعات کا ہے۔ بعض مصنوعات کی ترقی پر ہم نازاں ہو لیتے ہیں لیکن ان سے اتنا زرِمبادلہ ہاتھ نہیں آتا جتنا دفاعی مصنوعات کی فروخت اور برآمد سے آتا ہے۔ دفاعی مصنوعات میں لاگت اور منافع کا تناسب ناقابلِ یقین حد تک زیادہ ہے۔ دس روپے لگاؤ اور دس لاکھ کماؤ۔۔۔ اگر ایک ایف 16 طیارے کا لوہا، ربڑ، رنگ و روغن، پلاسٹک، تانبہ، ایلومینیم اور دوسری دھاتوں کا وزن کرکے ان کی قیمتِ خرید نکالی جائے تو چند لاکھ ہوگی جبکہ قیمت فروخت کئی کروڑ اور کئی ارب تک پہنچے گی۔ ۔۔۔تو کیوں نہ اس ’’کھل جا سم سم‘‘ کی طرف بڑھا جائے؟
لیکن اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ دفاعی علم و ہنر ہے جو صرف ترقی یافتہ زبانوں میں ہے۔ اگر ہم آج یہ فیصلہ کرلیں کہ اس دفاعی علم و ہنر کو اردو زبان میں عام کرنے پر کمر ہمت باندھ لیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کے دفاع اور اقتصادی قوت کی یہ ’’جوڑی‘‘ ہمارے ہاتھ نہ آئے۔
اگر سیالکوٹ، فیصل آباد اور گوجرانوالہ کے مشین ساز کارخانوں اور فیکٹریوں کے مالکان اپنی نئی نسل کو پڑھا لکھا کر باہر بھیجیں اور وہ وہاں سے ایسا علم و ہنر ساتھ لے کر آئیں کہ جو نہ صرف پاکستان کو زرمبادلہ سے مالامال کر دے بلکہ اس کو ضروریاتِ دفاع سے بھی بے نیاز کر دے تو ذرا سوچئے کہ ہم دیکھتے ہی دیکھتے کہاں سے کہاں جا پہنچیں گے۔
میں نے سطورِ گزشتہ میں افکارِ تازہ کا جو ذکر کیا ہے،وہ اسی نسبت سے کیا ہے کہ ہم چرمی بیگوں کو چھوڑ کر توپوں اور ٹینکوں کے اُن پرزہ جات کو بنانے کی طرف توجہ دیں جس کی لاگت ایک ہزار چرمی بیگوں سے سوگنا کم ہو لیکن فروخت میں ہزار گنا زیادہ نفع بخش ہو۔۔۔ کپڑے دھونے والی مشینوں کو چھوڑ کر کسی بکتر بند گاڑی کے ایسے پرزے بنانے شروع کریں جو سال بھر کی آمدنی کو ہفتہ بھر میں پورا کر دیں۔۔۔ زنانہ (یا مردانہ) پارچہ جات بنانے کی جگہ ایسے پیرا شوٹ بنائیں جو ایک تھان کی لاگت، ایک میٹر کی قیمتِ فروخت میں پوری کر دیں!اگرچہ حکومت کی طرف سے دفاعی پیداوار کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے سلسلے میں پابندیاں عائد ہیں لیکن اگر امریکہ یا چین سے درآمد کئے جانے والے حصے پرزے اپنے ہاں تیار کئے جانے والے حصوں پرزے کے برابر ہوں تو اگر حکومت ان کو نہیں بھی خریدے گی تو کئی بیرونی ممالک اس کے گاہک بن جائیں گے!
یہی افکار تازہ ہیں، یہی وہ جدید راہیں ہیں جن پر چلنا اگر گناہ بھی ہو تو ثواب کہلائے گا:
میآرا بزم بر ساحل کہ آنجا
نوائے زندگانی نرم خیز است
بدریا غلط وبا موجش ور آویز
حیاتِ جاوداں، اندر ستیز است
(ساحلوں پر بزم نہ سجاؤ کہ وہاں زندگی کی رفتار آہستہ ہے، دریا میں کودو اور موجوں سے زور آزمائی کرو کہ اس کشاکش میں دائمی زندگی پوشیدہ ہے!)
اگر ہم کسی اور سے سبق نہ سیکھیں تو چینیوں کے چلن ہی کو مشعلِ راہ بنا لیں۔ ہم یہ کہتے تو نہیں تھکتے کہ پاک چین دوستی ہمالہ سے زیادہ بلند اور بحرالکاہل سے زیادہ گہری ہے۔اگر ان کی تقلید ہی پر چل نکلیں تو ساری مشکلیں آسان ہو جائیں گی۔
ہمارے فیکٹری مالکان کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں / بیٹیوں کو چین (یا دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں) بھیجیں۔ وہاں کے فیکٹری مالکان کے شب و روز کا مشاہدہ کیا جائے گا کہ وہ لوگ اپنی اولادوں کو کس تعداد میں امریکہ، جرمنی، فرانس اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں بھیجتے اور وہاں سے اکتسابِ علم و ہنر کرتے ہیں۔ امریکہ کی سلی کون(Silicon) ویلی کیلی فورنیا کی کوئی ویب سائٹ ہی کھول لیں اور دیکھیں کہ وہاں کون کون سی ٹیکنالوجی سیکھنے کے لئے کتنے لاکھ چینی اور انڈین دن رات محوِ کار ہیں۔
ہمارے کارخانہ دار اپنی اولادوں کو اس خوف سے باہر نہیں بھیجتے کہ وہ نسل شائد وہاں جا کر گمراہ ہو جائے گی، شائد وہاں شادی کرلے گی اور وہیں کی ہو رہے گی، شائد۔۔۔ شائد!! لیکن جب تک ہم انگریزی زبان،دفاع، اقتصادیات اور صنعت و حرفت جیسے موضوعات کو نئی نسل کو نہیں پڑھائیں اور سکھائیں گے اور پھر انہیں پاکستان سے باہر ترقی یافتہ ملکوں میں نہیں بھیجیں گے، تب تک ہم چرمی بیگ، آلات جراحی، کپڑے دھونے کی مشینیں، بجلی کے پنکھے ،سوتی پارچات کے تھان اور سریا ہی بناتے رہیں گے ۔۔۔اور ایک صدی اور بیت جائے گی!
No comments